امام بخاری کی زندگی
امام بخاری اپنے سابق ائمہ کی آرزو، اساتذہ کا فخر اور ہم عصروں کے لئے سراپا رشک تھے۔ کیونکہ آپ کے زمانے میں امام احمد ابن حنبل، یحیی ابن معین، علی ابن مدینی کی علم حدیث میں بڑی شہرت تھی۔ لیکن جب آسمان علم حدیث پر امام بخاری کا سورج طلوع ہوا تو سارے محدثین ستاروں کی مانند چھپتے چلے گئے۔ صحیح مجرد میں اولین مجموعہ حدیث پیش کرنے والی ذات آپ کی ہے۔ اور پھر لوگوں نے کتب صحاح کی تصنیف کا آغاز فرمایا۔
ولادت
امام بخاری 13 شوال المکرم 194 ھ میں ماوراء النھر کے مشہور شہر بخارا" میں پیدا ہوئے۔
نام و نسب
آپ کا اسم گرامی محمد ابن اسماعیل ابن ابراہیم ابن مغیرہ ابن بردزہ جعفی ہے۔ بعد میں آپ نے اپنی کنیت "ابو عبداللہ" اختیار کی۔ آپ کے والد محترم اسماعیل بن ابراہیم عظیم محدث اور خدا ترس بزرگ تھے، ابن حبان نے ان کو طبقہ رابعہ کے ثقات اور معتمد علیہ راویوں میں گردانا ہے، امام ذہبی نے "تاریخ اسلام" اور امام بخاری نے "تاریخ کبیر"میں ان کا مفصل تذکرہ کیا ہے۔ انہیں امام مالک، عبد اللہ ابن مبارک اور حماد ابن زید جیسے نابغۂ روزگار حضرات سے حدیث روایت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اور یحییٰ ابن جعفر بیکندی، احمد ابن جعفر، نصر ابن حسین اور اہل عراق کی بڑی جماعت نے آپ سے احادیث کا سماع کیا۔ امام بخاری کے والد بڑے خوش حال اور دولت مند تھے۔ احمد ابن حفص کا قول ہے کہ میں اسماعیل ابن ابراہیم ابن مغیرہ الجعفی کی موت کے وقت حاضر خدمت تھا تو وہ مجھ سے کہنے لگے کہ میرے پاس جتنا مال ہے اس میں ایک درہم بھی مشتبہ نہیں۔ امام بخاری عجمی النسل ہیں آپ کے دادا مغیرہ ابن بردزہ الجعفی مجوسی تھے۔ حاکم بخارا "یمان جعفی" کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ اس نسبت سے امام بخاری کو بھی جعفی کہا جاتا ہے
ابتدائی حالات
بچپن کے زمانہ میں ہی امام بخاری کے والد اس دارفانی سے کوچ کر گئے تھے باپ کے انتقال کے بعد امام بخاری کی ماں نے تعلیم و تربیت اور دیگر امور کی تمام تر ذمہ داریاں سنبھالیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں:کم سنی میں ہی امام بخاری کی بینائی جاتی رہی۔اس زمانے کے مشہور اطباءومعالجین سے رجوع کیا گیالیکن نتیجہ بے سود رہا۔آپ کی والدہ محترمہ بڈی نیک اور پارسا تھیں۔ہمیشہ بیٹے کی فکر میں بے چین رہا کرتی تھیں اور بارگاہِ خداوندی میں رو رو کر فریاد کرتیں اور دامن پھیلا کراپنے لخت جگر کے لیے بینائی کی بھیک مانگتی تھیں۔ایک رات دیکھا کہ حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام تشریف فرما ہیں اور بشارت عظمی سناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رب قدیر نے تمہاری آہ و زاری اور دل سوز دعاؤں کے صدقے میں تمہارے فرزند ارجمند کی بینائی لوٹا دی ہے صبح جب امام بخاری بستر استراحت سے اٹھے تو آپ کی آنکھیں منور ہو چکی تھیں۔ ابتدائ تعلیمی مراحل سے گزرنے کے بعد جب امام بخاری دس سال کی عمر کو پہنچے تو قوت ایزدی نے آپ کے دل میں طلب علم حدیث کا شوق پیدا کردیا اور آپنے بخارا کے درس حدیث میں داخلہ لے لیا بڑی جانفشانی و دلچسپی کے ساتھ بڑے بڑے محدثین سے اکتساب فیض حاصل کرنے لگے متن کو محفوظ رکھا اور سند کے ایک ایک راوی کو ضبط کیا یہاں تک کے ایک سال گزرنے کے بعد متن حدیث اور سند پر اس درجہ کمال حاصل ہو گیا کہ بسا اوقات اساتذہ بھی آپ سے اپنی تصحیح کیا کرتے تھے ایک مرتبہ آپکے استاد نے حدیث بیان کرتے ہوئے ۔حدثنا سفیان عن ابی الزبیر عن ابراہیم کہا تو اس پر امام بخاری گرفت کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں ابو الزبیر سے ابراہیم کی کوئی روایت نہیں ہے استاد نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آپکو تہدید کی امام بخاری نے کہا کہ آپ کے پاس اصل موجود ہے اسکی طرف رجوع کیجئے، استاد نے جب اصل سے ملایا تو آپ سے پوچھا بتاؤ کس طرح ہے'آپ نے جوابا عرض کیا " حدثنا سفيان عن زبير بن عدى عن ابراهيم" اور بتلایا کہ سفیان کے شیخ ابو الزبیر نہیں بلکہ زبیر بن عدی ہیں آپ کی خدادادقوت حافظہ دیکھ کر استاد حیران و ششدر رہ گئے اور بھرے مجمع میں آپ کی مدح و ستائش کی ، اسی تیزی اور عراق ریزی کے ساتھ آپ علوم تقلیہ و عقلیہ حاصل کرتے رہے اور جب سولہ سال کی عمر کے ہوئے تو عبداللہ بن مبارک ،وکیع اور دیگر اصحابِ حنفیہ کی تصانیف کوازبر کر لیا اور أہل کلام کی رائے سے واقف ہوگۓ
حج و زیارت اور آغاز تصنیف
هجری ۲۱۰ میں امام بخار ی اپنے بھائی احمد بن اسماعیل اور اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ حج کرنے کے لیے حرمین شریفین حاضر ہوئے حج سے فارغ ہو کر آپ کے بھائی والدہ ماجدہ کو لیکر وطن واپس آ گئے اور آپ مزید تعلیم کے حصول کے لئے وہیں رہ گئے اسی دوران اپنے قضایا الصحابہ والتبعین کے عنوان سے ایک کتاب تحریر فرمائی اور اس کے بعد روضہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں بیٹھ کر تاریخ کبیر تصنیف کی خود امام بخاری کا بیان ہے کہ میں نے تاریخ کبیر میں اسماء گرامی کا ذکر کیا ان میں سے ہر ایک کی بابت مجھے کوئی نہ کوئی قصہ معلوم تھا لیکن اختصار کے پیش نظر میں نے اُن تمام قصوں کے بیان سے پہلو تہی کر لی تاریخ کبیر کی تکمیل ہوتے ہی اس کی نقل کا کام شروع ہو گیا تھا محمد بن یوسف فریابی کا بیان ہے کہ میں اس تاریخ کبیر کی نقل اسی وقت سے شروع کے دی تھی جب امام بخاری کی داڑھی تک نہیں نکلی تہی
طالب علم کے لیے سفر
امام بخاری نے علم حدیث کی طلب کی خاطر پہلا سفر ۲۱۶ میں مکہ مکرمہ کا کیا اگر آپ کے سفر کا سلسلہ قبل از یں شروع ہو گیا تھا تو لا محالا آپ بھی طبقات عالیہ کے اُن محدثین سے روایت حاصل کر لیتے تھے جن سے آپ کے ہم عصروں نے کی چوں ک آپ نے بھی طبقات عالیہ کے مقارب رواۃ مثلاً یزید بن ہارون اور ابو داؤد طیالسی کا زمانہ تھا جن دونوں امام بخاری نے مکہ کا سفر کیا اس وقت امام عبد الرزاق با حیات تھے، امام بخاری نے آپ سے روایت حدیث کے لیے یمن جانے کا ارادہ کیا لیکن سوء اتفاق کسی نے امام کو غلط خبر دیتے ہوئے کہا کہ امام عبد الرزاق کا انتقال ہوگیا یہ سن کر یمن جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور پھر ایک واسطہ کے ساتھ امام عبد الرزاق سے حدیث روایت کرنے لگے۔ امام بخاری نے علم حدیث کی طلب کے لیے دوردراز کا سفر کیا جیسے مرو، بلخ، ہرات، نیشاپور، مصر، شام وغیرہ، کوفہ اور بغداد کے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں،، میں شمار نہیں کر سکتا کہ میں نے کتنی مرتبہ محدثین کے ساتھ کوفہ اور بغداد کا رخت سفر باندھا
لا جواب حافظه
امام بخاریؒ غیر معمولی قوت حافظہ کے مالک تھے، ان کی قوت حافظہ کے حیران کن واقعات و کارناموں کو دیکھ کر گویا ایسا لگتا ہے کہ وہ از سرتاپا حافظہ ہی حافظہ تھے، اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پرپوتے تھے۔ حاشد بن اسمعیل کا بیان ہے کہ امام بخاری لڑکپن میں ہمارے ہمراہ سماع حدیث کی غرض سے مشائخ بصرہ کی خدمت میں تھے ہم سب شنیدہ حدیثوں کو لکھ لیا کرتے تھے جب کہ امام بخاری نہیں لکھتے تھے۔ سولہ دن گزرجانے کے بعد ہمیں اس بات کا خیال آیا تو ہم نے امام بخاری کو ملامت کی یہ کہتے ہوئے کہ تم نے اتنی محنت رائگاں کردی اس پر امام بخاری نے کہا تم اپنی تحریر کردہ مجموعہ لیکر آؤ. جب ہم لوگ لیکر حاضر ہوئے تو امام بخاری نے حدیثیں سمانے کا سلسلہ شروع کردیا حتیٰ کہ پندرہ ہزار حدیثیں بیان کر ڈالیں یہ سن کر ایسا لگتا تھا گویا یہ ساری روایات ہمیں خود امام بخاری نے املا کرائ ہیں محمد بن ازہر سجستانی کہتے ہیں کہ امام بخاری کے ساتھ سلیمان بن حرب کی خدمت میں سماع حدیث کی غرض سے حاضر ہوتا تھا، میں احادیث ضبط تحریر میں لے آتا جب کہ امام بخاری ایسا نہ کرتے اس پر کسی نے مجھ سے کہا بخاری احادیث نوٹ کیوں نہیں کرتے؟ میں نے جواب دیا کہ اگر تم سے کوئی حدیث لکھنے سے رہ جائے تو بخاری کے حافظ سے لکھ لینا، محمد بن حاتم کا بیان ہے کہ ایک دن ہم فریابی کے حلقہ درس میں شامل تھے کہ فریابی نے ایک سند حدیث بیان کرتے ہوئے کہا حدثنا سفیان عن ابی عرو عن ابی الخطاب عن ابی حمزہ۔ یعنی اس کی سند میں ابو سفیان کے علاوہ بقیہ تمام راویوں کی کنیت ذکر فرمائ - پہر آپ نے ان راویوں کے اصل نام معلوم کۓ سارے مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا اور اسکا جواب کوئی نہ دے سکا بالآخر سب کی نظریں امام بخاری پر مرکوز ہوئ تو امام بخاری نے ارشاد فرمایا۔ابو عروہ کا نام معمر بن راشب اور ابو الخطاب کا نام قتادہ بن دعامہ اور ابو حمزہ کا نام انس بن مالک ہے جیسے ہی امام بخاری نے یہ اسماء بتاۓ تو لوگ انگشت بدنداں رہ گئے آپکی خدادا قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ جو کتاب ایک بار دیکھ لیتے تو وہ آپ کو زبانی یاد ہو جاتی اور بعد میں یہ تعداد دو تین لاکھ تک پہنچ گئی جن میں ایک لاکھ احادیث صحیحہ اور دو لاکھ احادیث غیر صحیحہ تھیں ایک بار بلخ میں قیام کے دوران وہاں کے لوگوں نے فرمائش کی آپ اپنے شیوخ سے ایک ایک روایت بیان کیجئے تو اس پر آپ نے ایک ہزار شیوخ سے ایک ہزار حدیثیں زبانی بیان کردیں۔ سلیمان بن مجاہد بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں محمد بن سلام بیکندی کی مجلس میں پہنچا تو محمد بن سلام نے فرمایا اگر تم کچھ دیر قبل آۓ ھوتے تو میں تم کو وہ بچہ دکھاتا جسکو ستر ہزار حدیثیں زبانی یاد ہیں سلیمان بن مجاہد کہتے ہیں میں اس مجلس سے اٹھ کر امام بخاری کی جستجو میں لگ گیا تلاش بسیار کے بعد میں میں نے ان کو ڈھونڈ نکالا تھا اور پوچھا کیا تم وہی طفل نیک بخت ہو جسکو ستر ہزار حدیثیں یاد ہیں امام بخاری نے ارشاد فرمایا مجھے اس سے بھی زیادہ یاد ہیں ساتھ ھی جن صحابہ سے روایت کرتا ہوں ان میں اکثر کی تاریخ ولادت وفات اور جاے سکونت سے بھی آگاہ ہوں نیز وہی احادیث یاد کرتا ہوں جسکی اصل کتاب اور سنت میں ہے جب امام بخاری کا بغداد شریف ورود مسعود ہوا تو ایک بڑے مجمع کے سامنے آپ کا امتحان لیا گیا۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر غلط سند کے ساتھ حدیث پڑھی اور پوچھا کیا آپ اس حدیث کے بارے میں علم رکھتی ہیں آپ نے جواب دیا نہیں اسی طرح سے دس حدیثیں غلط اسناد کے ساتھ پڑہتا چلا گیا اور اس کے بعد ایک ایک کر کے دس لوگوں نے غلط سندوں کے ساتھ دس دس حدیثیں بیان کیں جب مجمع پر سکون طاری ہو گیا اور مزید کوئی سوال کرنے والا باقی نہ رہا تو امام بخاری نے جواب کا شروع جاری فرمایا اور پہلے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تم نے سب سے پہلی حدیث پڑھی اس کی اصل سند یہ ہے پھر دوسری حدیث کی سند تم نے یہ بیان کی تهم اس کی اصل سند یہ ہے اس طرح آپ نے ہر ہر حدیث کی صحیح اور غلط سند بیان فرمادی یہ دیکھ کر حاضرین بہت حیران ہوئے اور آپ کے علم و فضل کا بر ملا ا عتراف کیا تاریخ کے صفحات پر اسی قسم کا ایک اور واقعہ ملتا ہے کہ ثمرقند کے چار سو محدثین نے امام بخاری مغالطے میں ڈالنے کے لئے عراقی اسناد کو شامی شامی اسناد کو حجازی اور حجازی اسناد کو یمنی اسناد میں خلط ملط کردیا اسی طرح متن احادیث کے الفاظ کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا لیکن کسی حدیث کے الفاظ سند کے متعلق امام بخاري کو مغالطہ اور دھوکہ نہ دے سکے اور امام بخاری علیہِ الرحمہ نے ان تمام احادیث کے متن اور ان کی اسناد کو صحیح طرح بیان کر دیا
Life of Imam Bukhari
Imam Bukhari was the longing of his former imams, the pride of his teachers and hope of his contemporaries. Because in his time, Imam Ahmad Ibne Hanbal, Yahya Ibne Maeen, Ali Ibne Madeeni had great fame in the knowledge of Hadith. But when Imam Bukhari's sun rose on the sky of knowledge of hadith, all the hadith scholars went into hiding like stars. You are the one who presented the first collection of hadith in Sahih . And then other muhaddiseen started writing books of sihah...
Birth of imam Bukhari
Imam Bukhari was born on 13 Shawwal-ul-Mukarram 194 Hijri in the famous city of Ma-vara-un-Nahr in Bukhara...
Name And Lineage
The blessed name of Imam Bukhari was Muhammad bin Ismail bin Ibrahim bin Mugheera bin Bardzajah Ja'afi. Later, he adopted the kunya (agnomen) of Abu Abdullah. Your respected father, Ismail bin Ibrahim, was a great scholar and pious person. Ibn Hibban considers him reliable in the trustworthy narrators of Tabqa-e-Rabia. Imam Zahabi in "Tareekh-e-Islam" and Imam Bukhari in "Tareekh-e-Kabeer" have mentioned him in their detailed biographies. He obtained the honor of narrating Hadith from esteemed personalities like Imam Malik, Abdullah ibn Mubarak, and Hammad ibn Zaid. Yahya ibn Ja'far Bakeendi, Nasr ibn Hussein, and the prominent scholars of Iraq also took Hadith from him. Imam Bukhari's Father were wealthy and prosperous. Ahmad ibn Hafs stated that when Ismail bin Ibrahim bin Mugheera Al-Ja'afi was on his deathbed and I was attending him, he said to me, "Whatever wealth I have, not even a single dirham is ill-gotten." Imam Bukhari belonged to the Azmi-ul-Nasl (a sub-tribe of Arab). His grandfather, Mugheera ibn Bardzajah Al-Ja'afi, was originally from Majoos (Zoroastrian) but embraced Islam under the influence of Hakim-e-Bukhara Yemeni Ja'afi, and therefore, Imam Bukhari is also known as Ja'afi due to this association.
childhood circumstances
In his childhood, Imam Bukhari's Father migrated from this world. After his father's demise, Imam Bukhari's mother took charge of his education, upbringing, and other responsibilities. Historians write that even at a young age, Imam Bukhari's eyes were radiant. Despite seeking advice from renowned (Muallijeen)doctors and healers of that time, the result was futile. His mother was a noble and virtuous woman. She always remained anxious for her son's well-being, prayed with tears in her eyes, and pleaded in the court of the ALLAH Almighty, spreading her hands and seeking alms for her blind eyes. One night, she saw in a dream that Prophet Ibrahim Alaihissalam came and, with great glad tidings, said, "The Lord of all worlds ALLAH has granted your heart's desires, and your son's eyesight has been restored." When Imam Bukhari woke up the next morning, his eyes were indeed shining. After passing through the early stages of education, when Imam Bukhari reached the age of 10 Years, a fervor for Hadith knowledge was ignited in his heart by Divine guidance, and he started attending Hadith classes in Bukhara. With great enthusiasm and fascination, he began acquiring knowledge from prominent Hadith scholars, obtaining the blessings of their teachings. He preserved the texts (Matan) and memorized the chains of narrations (Sanad), to the extent that within just one year, his proficiency in Hadith texts (Matan) and chains of narrations (Sanad) reached such an excellent level that even experienced scholars sought his verification. Sometimes, scholars would even ask him to verify their own works. Once, while narrating a Hadith, his teacher mistakenly mentioned "Haddasna Sufyan an Abu Zubair an Ibrahim." Imam Bukhari immediately corrected him, saying, "No, there is no narration from Sufyan an Abu Zubair bin Adi an Ibrahim. Rather, it is from Sufyan bin Uyaina an Zubair bin Adi." Upon witnessing the depth of Imam Bukhari's knowledge and memory, the teacher was amazed and praised him in front of the gathering. With this dedication and under the guidance of scholars like Iraq Razi, Imam Bukhari continued to excel in various disciplines of religious knowledge. When he turned 16, he meticulously compiled the "Tasanif" (works) of Abdullah ibn Mubarak, Waqii, and other Hanafi companions. He became well-versed in theological conversation (Ulum-e-Takliya) and rational sciences (Ulum-e-Aqliya) according to the opinion of Ahl al-Kalam.
Hajj and Ziyarat and the Beginning of Composition
In the year 210 AH, Imam Bukhari, along with his brother Ahmad bin Ismail and his revered mother, went to the sacred lands of Haramain Sharifain (Mecca and Medina) to perform Hajj. After completing the Hajj imam Bukhari's brother returned to the Land with his mother, while Imam Bukhari remained there to pursue further education. During this period, he authored a book titled "Qaza Al-Sahaba wal Tabiyeen" (The Biographies of the Companions and Successors). After that, he sat near the holy grave of Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وسلم) and stated in his own words in the book "Tarikh Kabir" that he had mentioned the names of the esteemed Sahaba (Companions) in it. For each of them, he had knowledge of some significant events, but due to brevity, he summarized their stories. Once the completion of "Tarikh Kabir" was nearing, he began the task of copying the narration. Muhammad bin Yusuf Faryabi mentioned that he started copying "Tarikh Kabir" exactly when Imam Bukhari's beard had not yet fully grown
Journey for the Seeker of Knowledge
Imam Bukhari made his first journey to Makkah Mukarramah in the year 216 AH (After Hijri) to seek knowledge of Hadith. If your travel series had begun before that time, it would have been impossible for you to collect narrations from the distinguished scholars of that time. Just like you, Imam Bukhari also obtained narrations from the prominent scholars of his time, such as Yazid bin Harun and Abu Dawood Tiyalisi, who were also present in Makkah during his journey. At that time, Imam Abd al-Razzaq was alive. mam Bukhari intended to go to Yemen to obtain Hadith narrations from him, but unfortunately, someone mistakenly informed him that Imam Abd al-Razzaq had passed away. Upon hearing this, Imam Bukhari dropped the plan to go to Yemen and began narrating Hadith with the help of an intermediary from Imam Abd al-Razzaq. Imam Bukhari embarked on extensive journeys to seek knowledge of Hadith. He traveled to distant places like Marw, Balkh, Hiraat, Nishapur, Egypt, Syria, and others. He mentioned his own guidance regarding Kufa and Baghdad. He said, "I cannot count how many times I traveled between Kufa and Baghdad, accompanying the scholars to seek knowledge of Hadith."
Extraordinary Memory
Imam Bukhari had an extraordinary memory, and the astonishing events and accomplishments attributed to his memory make it seem as if he possessed an exceptional gift in memorization. and he was the great-grandson of Hazrat Abu Huraira (a well-known companion of the Prophet Muhammad ﷺ) . "Hāshid bin Ismā'īl narrates that during childhood, Imam Bukhari was in the service of the scholars of Basra for the purpose of listening to Hadith. We used to write down all the Hadiths that we heard, while Imam Bukhari did not write anything. After sixteen days had passed, we felt concerned about this and reproached Imam Bukhari, saying that you have made so much effort, but you are not writing anything. Upon hearing this, Imam Bukhari said, 'Bring the collection of your written Hadiths.' When we brought them, Imam Bukhari began narrating Hadiths one after another, until he presented fifteen thousand Hadiths. Upon hearing this, it felt as if Imam Bukhari himself had composed all these traditions." Mohammad bin Azhar Sajistani Says that he used to attend the class of Sulaiman bin Harab along with Imam Bukhari for the purpose of listening to Hadith. I used to write down the Hadiths but Imam Bukhari did not do the same. Someone asked me, "Why doesn't Bukhari take notes of the Hadiths?" I replied, "If you miss any Hadith, you can write it down from Bukhari's memory." Muhammad bin Hatim Says that one day, we were present in the circle of Faryaabi's study when Faryabi mentioned a Hadith and said, "Narrated to us سفیان عن ابی عرو عن ابی الخطاب عن ابی حمزہ۔ It means in the chain of narrators, all the names of the narrators except Abu Sufyan were known by their kunya.(agnomen) Hearing this, Imam Bukhari identified the real names of all those narrators from his memory, leaving everyone in astonishment. No one could provide an answer. Finally, all eyes focused on Imam Bukhari, and he said, "Abu 'Arwah's name is Ma'mar bin Rashib, Abu Al-Khattab's name is Qatadah bin Da'amah, and Abu Hamzah's name is Anas bin Malik." As soon as Imam Bukhari revealed these names, the people were left speechless in admiration."Your Allah gave you such a Power of Memory was such that if you looked at a book once, its contents would be memorized in your mind." And later, this number reached up to two to three Lakhs, among which there were one Lakhs Sahiha (authentic) Hadiths and two Lakhs GairSahiha (non-authentic) Hadiths. During one of the stays in Balakh, the people there requested you to narrate a Hadith from each of your teachers. Upon this request, you narrated one thousand Hadiths verbally from one thousand teachers. Sulaiman bin Mujahid says that one day I arrived at the gathering of Muhammad bin Salam Bekandi Upon my arrival, Muhammad bin Salam said, "If you had come a little earlier, I would have shown you the young boy who has memorized seventy thousand Hadiths verbally.", Salman bin Mujahid says, "After leaving that gathering, I set out in search of Imam Bukhari. After a long search, I finally found him and asked, 'Are you the same fortunate child who has memorized seventy thousand Hadiths?'" Imam Bukhari said, "I remember even more than that. I also narrate from the Sahaba (companions), and I am well aware of their birth and death dates as well as their places of residence. I also memorize the Hadiths that are found in the original books and sources.", When Imam Bukhari arrived in the esteemed city of Baghdad, a grand gathering was arranged to examine him. One person stood up and read a Hadith with an incorrect chain of narrators and asked, "Do you have knowledge about this Hadith?" imam Bukhari didn't answer. Similarly, ten people consecutively read ten Hadiths with incorrect chains of narrators. After this, ten more individuals each read ten Hadiths with erroneous chains. When calm settled over the assembly, and no one was left to ask further questions, Imam Bukhari began responding, addressing the first person, "The original chain of the Hadith you read is this." Then you narrated the chain of the second Hadith and said, "The authentic chain for this is as follows." In this way, you proceeded to provide the correct and incorrect chains for each and every Hadith. Upon witnessing this, the audience was greatly astonished and acknowledged your vast knowledge and excellence. On the pages of history, another incident of this nature is found where four hundred scholars from Samarkand mixed the Iraqi narrations with the Syrian, the Syrian with the Hijazi, and the Hijazi with the Yemeni narrations to mislead Imam Bukhari. They also intermingled the wording of the Hadiths with one another. However, they couldn't deceive Imam Bukhari regarding the authenticity of the chains related to the texts of the Hadiths. Imam Bukhari, may Allah have mercy on him, accurately presented the texts and their chains for all these Hadiths.
इमाम बुखारी की हयात-ए-जिंदगी
इमाम बुखारी अपने साबिक अइम्मा की आरज़ू, असातिज़ा का फख्र और हम असरो के लिए सरापा रश्क थे…. क्योकि आपके ज़माने में इमाम अहमद इब्ने हम्बल,याहया इब्ने मईन अली इब्ने मदीनी की इल्म-एहदीस में बड़ी शोहरत थी.. लेकिन जब आसमान-ए-इल्म-ए-हदीस पर इमाम बुखारी का सूरज तुलू हुआ तो सारे मुहद्दिसीन सितारों की मानिंद छुपते चले गये.. .सबसे पहले मजमुआ-ए-हदीस पेश करने वाली ज़ात आपकी है, और फिर लोगो(मुहद्दिसीन) ने क़ुतुब-ए सिहाह का आगाज़ फ़रमाया।।
विलादत (पैदाइश)
इमाम बुखारी 13 शव्वाल-उल-मुकर्रम 194 हिजरी में मा-वरा-उन-नहर के मशहूर शहर बुखारा में पैदा हुए...
नाम व नसब
इमाम बुखारी का मुबारक नाम मुहम्मद बिन इस्माईल बिन इब्राहीम बिन मुग़ीरा बिन बरदजाह जा’अफी है, बाद में आपने अपनी कुन्नियत अबू अब्दुल्लाह इख़्तियार की, आपके वालिद मुहतरम इस्माईल बिन इब्राहीम अज़ीम मुहद्दिस और खुदा तरस बुज़ुर्ग थे, इब्ने हिब्बान ने उनको तब्क़ा-ए-राबिआ के सीक़ात ऐतेमादी रावियों में गरदाना है, इमाम ज़हबी ने “तारिख-ए-इस्लाम” और इमाम बुखारी नें “तारिख-ए-कबीर” में उनका मुफ़स्सल तज़किरा किया है, इन्हे इमाम मालिक, अब्दुल्लाह इब्ने मुबारक और हम्माद इब्ने ज़ैद जैसे मुअज़्ज़ज़ हज़रात से हदीस रिवायत करने का शर्फ़ हासिल हुआ, और याहया इब्ने जाफर बेकंदी, नस्र इब्ने हुसैन और अहले इराक की बड़ी जमाअत ने आप से अहदीस का सिमाअ किया, इमाम बुखारी के वालिद बड़े खुशहाल और दौलत मंद थे, अहमद इब्ने हफ़्स का क़ौल है की में इस्माईल बिन इब्राहीम बिन मुग़ीरा अल-जा’अफी की मौत के वक़्त हाज़िर-ए-खिदमत था तो वो मुझसे कहने लगे की मेरे पास जितना माल है उसमे एक दिरहम भी मुश्तबह नहीं, इमाम बुखारी अज़्मी-उल-नस्ल हैं आप के दादा मुग़ीरा इब्ने बरदजाह अल-जा’अफी मजूसी थे हाकिम-ए-बुखारा यमान जा’अफी के हाथ पर इस्लाम क़बूल किया, इस निस्बत से इमाम बुखारी को भी जा’अफी कहा जाता है...
बचपन के हालात
बचपन के ज़माने में ही इमाम बुखारी के वालिद इस दार-ए-फानी से कूच कर गए थे, बाप के इंतकाल के बाद इमाम बुखारी की वालिदा ने तालीम व तरबियत और दीगर उमूर की तमाम ज़िम्मेदारिया संभाली, मुअर्रिख़ीन लिखते है कम सनी में ही इमाम बुखारी की बिनाई(आँखों की रौशनी) जाती रही, उस ज़माने के मशहूर मुअल्लीजीनो (हकीमो) से रुजू किया गया लेकिन नतीजा बे स्वाद रहा, आपकी वालिदा मोहतरमा बड़ी नेक और पारसा थी, हमेशा बेटे की फ़िक्र में बेचैन रहा करती थी और बारगाह-ए-खुदावन्दी में रो रो कर फरयाद करती और दामन फैला कर अपने लख्ते जिगर के लिए बिनाई की भीख़ मांगती थी, एक रात देखा की हज़रत सय्यदना इब्राहीम علیہ الصلوۃ والسلام ख्वाब में तशरीफ़ लाये और बशारत देते हुए फरमाते है रब्बुल आलामीन ने तुम्हारी दिल सोज़ दुआओं के सदके में तुम्हारे फ़रज़न्द की बिनाई लोटा दी है, सुबह जब इमाम बुखारी बिस्तर से उठे तो आपकी आँखे मुनव्वर हो चुकी थी, इब्तिदाई तालीमी मराहले से गुजरने के बाद जब इमाम बुखारी 10 साल की उमर को पहुंचे क़ुव्वते ऐज़दी ने आपके दिल में तलब-ए-इल्म-ए-हदीस का शोक पैदा कर दिया और आपने बुखारा के दरसे हदीस में दाखला लिया, बड़ी जांफशनी व दिलचस्बी के साथ बड़े बड़े मुहद्दिसीन से इक्तेसाब फैज़ हासिल करने लगे मतन को मज़बूत रखा और सनद के एक एक रावी को ज़ब्त किया यहाँ तक की एक साल गुजरने के बाद मतन-ए-हदीस और सनद पर इस दर्जे कमाल हासिल हो गया की बाज़ ओकात(वक़्त) असातिज़ा भी आपसे अपनी तसहीह किया करते थे, एक मरतबा आपके उस्ताद ने हदीस बयान करते हुए हद्दासना सुफ़यान अन अबी ज़ुबैर अन इब्राहीम कहा तो इस पर इमाम बुखारी ग्रिफ्त करते हुए अर्ज़ करते है अबू ज़ुबैर से इब्राहीम की कोई रिवायत नहीं है, उस्ताद ने बरहमी का इज़हार करते हुए आपको तेहदीद की इमाम बुखारी ने अर्ज़ किया हुज़ूर आपके पास अस्ल मौजूद है इसकी तरफ रुजू कीजिये, उस्ताद ने जब अस्ल से मिलाया तो आपसे पुछा बताओ किस तरह है, आपने जवाब अर्ज़ किया हद्दसना सुफ़यान अन ज़ुबैर बिन अदी अन इब्राहीम और बताया की सुफ़यान के शैख़ अबू ज़ुबैर नहीं बल्कि ज़ुबैर बिन अदी हैं, आपकी खुदादाद क़ुव्वत-ए-हाफ़िज़ा देख कर उस्ताद हैरान व शाशाद्दुर रह गये और भरे मजमे में आप की तारीफ की, इसी तेज़ी और इराक रेज़ी के साथ आप उलूम-ए-तकलिया व अकलिया हासिल करते रहे, और जब 16 साल की उम्र के हुए तो अब्दुल्लाह इब्ने मुबारक, वकी और दीगर असहाब-हनफ़िया की तसानीफ़ को अज़बर कर लिया और अहले कलाम की राये से वाकिफ हो गयें...
हज व ज़ियारत और आगाज़-ए-तस्नीफ़-
210 हिजरी में इमाम बुखारी अपने भाई अहमद बिन इस्माईल और अपनी वालिदा माजिदा के साथ हज करने के लिए हरमैन शरीफ़ैन हाज़िर हुए. हज से फ़ारिग होकर आप के भाई वालिदा माजिदा को लेकर वतन वापस आ गये और आप मज़ीद तालीम हासिल करने के लिए वही रुक गये. इस दौरान आपने क़ादाय-अस-सहाबा-वत्ताबैईन के उनवान एक किताब तहरीर फ़रमाई और उसके बाद रोज़ा-ए-रसूल-ए-पाक़ (ﷺ) के पहलु में बैठकर तारीख-ए-कबीर किताब लिखी. खुद इमाम बुखारी का बयान है की मेने तारिख-ए-कबीर में अस्मा-ए-गिरामी का ज़िक्र किया। इनमे से हर एक के बाबत मझे कोई न कोई किस्सा मालूम था. लेकिन इख्तिसार के पेश-ए-नज़र मेने उन तमाम किस्सों के बयान से पहलू तही करली। तारीख-ए-कबीर की तकमील होते ही उसकी नक़ल का काम शुरू हो गया था. मुहम्मद बिन यूसुफ़ फरयाबी का बयान है की मेने तारीख-ए-कबीर की नक़ल उसी वक़्त से शुरू कर दी थी. जब इमाम बुखारी के दाढ़ी भी नहीं निकली थी….
तलब-ए-इल्म के लिए सफर
इमाम बुखारी ने इल्म-ए-हदीस के लिए पहला सफर 216 हिजरी में मक्का-ए-मुकर्रमा का किया, अगर आपके सफर का सिलसिला पहले से शुरू हो गया होता तो नामुमकिन नहीं होता आप भी तबकात-ए-आलिया के उन मुहद्दिसीन से रिवायत हासिल कर लेते जिनसे आपके हम असरो ने की, चूँकि आपने भी तबकाते आलिया के मकारिब रिवायतन मसलन यज़ीद बिन हारुन और इमाम अबू दावूद तयालसी का ज़माना पा लिया था, जिन दिनों इमाम बुखारी ने मक्का-ए-मुकर्रमा का सफर किया उस वक़्त इमाम अब्दुर्रज़्ज़ाक़ बा हयात थे, इमाम बुखारी ने आपसे रिवायत-ए-हदीस के लिए यमन जाने का इरादा किया, लेकिन इत्तेफाक से किसी ने इमाम बुखारी को गलत खबर देते हुए कहा की इमाम अब्दुर्रज़्ज़ाक़ का इंतकाल हो गया है, ये सुन कर यमन जाने का इरादा तर्क कर दिया, और फिर एक वास्ते के साथ इमाम अब्दुर्रज़्ज़ाक़ से हदीस रिवायत करने लगे, इमाम बुखारी ने इल्म-ए-हदीस की तलब के लिए दूर दराज़ का सफर किया, जैसे मर्व,बल्ख,हिरात,निशापुर,मिस्र,शाम वगेरा, कूफ़ा और बगदाद के मुताल्लिक खुद इरशाद फरमाते है, में शुमार नहीं कर नहीं कर सकता की मेने कितनी मर्तबा मुहद्दिसीन के साथ कूफ़ा और बगदाद का सफर किया...
लाजवाब हाफ़िज़ा
इमाम बुखारी गैर मामूली क़ुव्वते हाफ़िज़ा के मालिक थे, उनकी क़ुव्वते हाफ़िज़ा के हैरान कुन वाक़िआत व कारनामो को देखकर ऐसा लगता है की वो सर से पाऊ तक हाफ़िज़ा ही हाफ़िज़ा थे, और हज़रत अबू हुरैरा رضی اللہ تعالی عنہ के परपोते थे, हाशिद इब्ने इस्माईल का बयान है की इमाम बुखारी लड़कपन में हमारे साथ हदीस सुनने की गर्ज़ से मशाइख़-ए-बसरा की खिदमत में थे, हम सब शुनीदा हदीसो को लिख लिया करते थे, जबकि इमाम बुखारी नहीं लिखते थे, 16 दिन गुज़र जाने के बाद हमें इस बात का ख्याल आया तो हमने बुखारी को ये कहते हुए तंज की तुमने इतनी मेहनत बरबाद कर दी, इस पर इमाम बुखारी ने फ़रमाया की तुम अपनी तहरीर करदा हदीसो का मजमुआ लेकर आओ, जब हम लोग लेकर हाज़िर हुए तो इमाम बुखारी ने हदीसें सुनाने का सिलसिला शुरू कर दिया हत्ता की 15000 हदीसे बयान कर डाली, ये सुनकर ऐसा लगता था की ये सारी रिवायात हमें खुद इमाम बुखारी ने इमला कराइ हैं, मुहम्मद इब्ने अज़हर सजिस्तानी कहते है की इमाम बुखारी के साथ सुलेमान इब्ने हरब की खिदमत में हदीस सुनने की गर्ज़ से हाज़िर होते था, में अहादीस ज़बते तहरीर में ले आता जबकि इमाम बुखारी ऐसा न करते, इस पर मुझसे किसी ने कहा बुखारी हदीस नोट क्यों नहीं करते, मेने जवाब दिया की अगर तुमसे कोई हदीस लिखने से रह जाये तो बुखारी के हाफिजे से लिख लेना, मुहम्मद इब्ने हातिम का बयान है की एक दिन हम फरयाबी के हल्का-ए-दर्स में शामिल थे, फरयाबी ने एक हदीस की सनद बयान करते हुए कहा हद्दस्ना सुफ़यान अन अबी ख़त्ताबी अन अबी हम्ज़ यानी इसकी सनद में सुफ़यान के अलावा बाकी तमाम रावियों की कुन्नियत बयान फ़रमाई, फिर आपने इन रावियों के अस्ल नाम मालूम किये, सारे मज्मे में ख़ामोशी छा गई और इसका जवाब कोई न दे सका, बिल आखिर सबकी नज़रे इमाम बुखारी पर थी, तो इमाम बुखारी ने इरशाद फ़रमाया अबु उरवा का नाम मा’अमर इब्ने राशिब और अबुल खत्ताब का नाम कतादा इब्ने दा’अमा और अबू हमजा का नाम अनस बिन मालिक है, जैसे ही इमाम बुखारी ने ये नाम बताये तो हाज़िरीन मुँह में उंगलिया चबाते रह गये, आपकी खुदादाद क़ुव्वते हाफ़िज़ा का ये हाल था की जो किताब एक बार देख लिया करते तो वो आपको ज़ुबानी याद हो जाती और बाद में ये तादाद 2-3 लाख तक पहुँच गई, जिनमे एक लाख अहादीस-ए-सहीहा और 2 लाख अहादीस-ए-गैर सहीहा थीं, एक बार बल्ख में क़याम के दौरान वहां के लोगो ने फ़रमाइश की के आप आपने शुयूख से एक-एक-रिवायत बयान कीजिये, तो इस पर इमाम बुखारी ने 1000 शुयूख से 1000 हदीसे ज़ुबानी बयान करदी, सुलेमान इब्ने मुजाहिद बयान करते हैं की, एक दिन में मुहम्मद इब्ने सलाम बेकंदी की मजलिस में पंहुचा तो मुहम्मद इब्ने सलाम ने फ़रमाया अगर तुम कुछ देर पहले आये होते तो में तुमको वो बच्चा दिखाता जिसको 70000 हदीस अज़बर याद हैं, सुलेमान इब्ने मुजाहिद कहते हैं, में उस मजलिस से उठकर इमाम बुखारी की जुस्तजु में लग गया बहुत तलाश के बाद मेने उनको ढूंढ निकाला और पुछा किया तुम ही वो नेक बच्चे हो जिसको 70000 अहादीस याद है, इमाम बुखारी ने फ़रमाया मुझे इससे भी ज़्यादा अहादीस याद हैं साथ ही जिन सहाबा से रिवायत करते हुँ उनमे अक्सर की विलादत व तारिख-ए-बफात और रहने की जगह से आगाह हूँ, और वही हदीस रिवायात करता हूँ जिनकी अस्ल किताब और सुन्नत में है, जब इमाम बुखारी बगदाद शरीफ गये तो एक बड़े मजमे के सामने आपका इम्तिहान लिया गया, एक शख्स ने खड़े होकर गलत सनद के साथ हदीस पढ़ी और पुछा की आप इस हदीस के बारे में इल्म रखते है, आपने जवाब दिया नहीं, इसी तरह से 10 हदीसे गलत सनदों के साथ पढ़ता चला गया और उसके बाद एक-एक काके 10 लोगो ने गलत सनदों के साथ 10-10 हदीसे रिवायत की जब मजमे पर सुकून तारी हो गया और मज़ीद कोई सवाल करने वाला बाकी न रहा तो इमाम बुखारी ने जवाब का सिलसिला शुरू फ़रमाया, और पहले शख्स को मुख़ातब करते हुए फ़रमाया की तुमने जो सबसे पहले हदीस पढ़ी उसकी अस्ल सनद ये है, फिर दूसरी हदीस की सनद आपने ये बयाान की ता हम उसकी असली सनद ये है, इसी तरह आपने हर-हर हदीस की सही और गलत सनदों को बयान फरमा दिया, ये देख कर हाज़िरीन बहुत हैरान हुए और आपके इल्म-ओ-फ़ज़्ल को सरे आम क़बूल किया, तारिख के सफ़हात पर इसी किस्म का एक और वाक़िआ मिलता है, की समरकंद के 4 मुहद्दिसीन ने इमाम बुखारी को मुग़ालते में डालने के लिये इराकी सनदों को शमी, शामी सनदों को हिजाज़ी, और हिजाज़ी सनदों को यमनी, सनदों में खलत मलत कर दिया, इसी तरह मातून-ए-अहादीस के अलफ़ाज़ को एक दूसरे के साथ मिला दिया, लेकिन किसी हदीस के अलफ़ाज़ सनद के मुताल्लिक इमाम बुखारी को मुगालता और धोका न दे सके, और इमाम बुखारी رحمة الله عليه इन तमाम अहादीस के मातून और उनकी सनदों को सही तरह बयान कर दिया….
Hadees No-1
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِيَّ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا ، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ .
Read Less....
Hadees No-2
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ فَيُفْصَمُ عَنِّي ، وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِي الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرْدِ فَيَفْصِمُ عَنْهُ ، وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا
Read Less....
Hadees No-3
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، أَنَّهَا ، قَالَتْ : أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ ، فَقَالَ : اقْرَأْ ، قَالَ : مَا أَنَا بِقَارِئٍ ، قَالَ : فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي ، فَقَالَ : اقْرَأْ ، قُلْتُ : مَا أَنَا بِقَارِئٍ ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي ، فَقَالَ : اقْرَأْ ، فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ : اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ { 1 } خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ { 2 } اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ { 3 } سورة العلق آية 1-3 ، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، فَقَالَ : زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي ، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ : لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي ، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ : كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا ، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ ، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ ، فَيَكْتُبُ مِنَ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ : يَا ابْنَ عَمِّ ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ : يَا ابْنَ أَخِي ، مَاذَا تَرَى ، فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ : هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا ، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ ، قَالَ : نَعَمْ ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا ، ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ
Read Less....
Hadees No-4
قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ: وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الوَحْيِ فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: " بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي، فَإِذَا المَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ، فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي " فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا المُدَّثِّرُ. قُمْ فَأَنْذِرْ} [المدثر: ٢] قَوْلِهِ {وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ} [المدثر: ٥]. فَحَمِيَ الوَحْيُ وَتَتَابَعَ تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، وَأَبُو صَالِحٍ، وَتَابَعَهُ هِلاَلُ بْنُ رَدَّادٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ بَوَادِرُهُ
Read Less....
Hadees No-5
Read Less....
Hadees No-6
Read Less....
Follow Us On
Privacy Policy© 2022 islam1400.com All rights reserved